Tum Ek Gorakh Dhanda Ho is a qawalli sung by a legend of Sufi music, Nusrat Fateh Ali Khan. The verses of ‘tum aik gorakh dhanda ho’ were composed by Naz Khialvi and have been translated by the author of this post for the audience.
In this entire poem, the poet communicates with God, expressing how he has searched for Him through various means, only to realize that every attempt ends in failure, leading him to the conclusion: “You are a baffling puzzle” (Tum ek Gorakh Dhandha ho). The poet delves deeply into the concept of God, trying to clarify it for us. He even searches for God in mosques and temples, but is ultimately astonished to discover that God can only be found within the heart. This is the core idea of Sufism—a mystical belief that God exists everywhere and the path to Him is through the heart.
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا، کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مِٹ گئے پامال ہو گئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نِشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو،
تم اک گورکھ دھندا ہو
ہر ذرّے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے
حیراں ہے مگر عقل کہ کیسا ہے تو کیا ہے
تجھے دیر و ہرم میں میں نے ڈھونڈا، تو نہیں ملتا
مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دِل میں دیکھا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
ڈھونڈے نہیں ملے ہو، نا ڈھونڈے سے کہیں تم
اور پھر یہ تماشہ ہے جہاں ہم ہیں وہیں تم
تم اک گورکھ دھندا ہو
جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں
پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا
تم اک گورکھ دھندا ہو
حرم و دیر میں ہے جلوۂ پُرفن تیرا
دو گھروں کا ہے چراغ اِک رُخِ روشن تیرا
تم اک گورکھ دھندا ہو
جو اُلفت میں تمہاری کھو گیا ہے
اُسی کھوئے ہوئے کو کچھ مِلا ہے
نہ بُت خانے، نہ کعبے میں مِلاہے
مگر ٹوٹے ہوئے دِل میں ملا ہے
عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے
کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے
نہیں ہے تو تو پھر اِنکار کیسا
نفی بھی تیرے ہونے کا پتا ہے
میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی
اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے
نہیں آیا خیالوں میں اگر تو
تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
حیران ہوں اِس بات پہ تم کون ہو کیا ہو
ہاتھ آؤ تو بُت، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو
عقل میں جو گھِر گیا لا اِنتہا کیوںکر ہوا
جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خدا کیوںکر ہوا
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں
پتا یوں تو بتا دیتے ہو سب کو لا مکاں اپنا
تعجب ہے مگر رہتے ہو تم ٹوٹے ہوئے دِل میں
تم اک گورکھ دھندا ہو
جب کہ تجھ بِن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
چھپتے نہیں ہو سامنے آتے نہیں ہو تُم
جلوہ دِکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تُم
دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تُم
جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تُم
حیراں ہوں میرے دِل میں سمائے ہو کِس طرح
ہالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تُم
یہ معبد و حرم یہ کلیسا و دیر کیوں
ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تُم
تم اک گورکھ دھندا ہو
دِل پہ حیرت نے عجب رںگ جما رکھا ہے
ایک اُلجھی ہوئی تصویر بنا رکھا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چکّر کیا ہے
کھیل کیا تُم نے ازل سے یہ رچا رکھا ہے
روح کو جسم کے پنجرے میں بنا کر قیدی
اُس پہ پھر موت کا پہرا بھی بِٹھا رکھا ہے
دے کے تدبیر کے پنچھی کو اُڑانیں تُم نے
دامِ تقدیر بھی ہر سمت بچھا رکھا ہے
کر کے آرائشیں کونین کی برسوں تُم نے
ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنا رکھا ہے
لامکانی کا بہر حال ہے دعوا بھی تمہیں
نحنُ اقرب کا بھی پیغام سُنا رکھا ہے
یہ بُرائی، وہ بھلائی، یہ جہنّم وہ بہشت
اِس اُلٹ پھیر میں فرماؤ کہ کیا رکھا ہے
جرم آدم نے کیا اور سزا بیٹوں کو
عدل و اِنصاف کا میعار بھی کیا رکھا ہے
دے کے اِنسان کو دُنیا میں خلافت اپنی
اِک تماشا بھی زمانے میں بنا رکھا ہے
اپنی پہچان کی خاطر ہے بنایا سب کو
سب کی نظروں سے مگر خود کو چھپا رکھا ہے
تم اک گورکھ دھندا ہو
نِت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرمِ تمنّا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مِٹّی میں مِلا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جِس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہشِ دید جو کر بیٹھے سرِ طور کوئی
طور ہی برقِ تجلّی سے جلا دیتے ہو
نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہِ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دے کے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخرِ کار شہہِ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دِل میں انالحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اُس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اِک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اُسے جھنگ کے بیھیرے میں رُلا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اُس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تُم اُسے تپتے ہوئے تھل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تُم کو مہیوال تصّور کر لے
اُس کو بِپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سرِ عرش بُلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
تُم اِک گورکھ دھندا ہو
جو کہتا ہوں مانا تمہیں لگتا ہے بُرا سا
پھر بھی ہے مجھے تُم سے بہر حال گِلا سا
چُپ چاپ رہے دیکھتے تُم عرشِ بریں پر
تپتے ہوئے کربل میں محمد کا نواسا
کِس طرح پِلاتا تھا لہو اپنا وفا کو
خود تین دنوں سے وہ اگر چہ تھا پیاسا
دشمن تو بہر طور تھے دشمن مگر افسوس
تُم نے بھی فراہم نہ کیا پانی ذرا سا
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسا
کل تاج سجا دیکھا تھا جِس شخص کے سر پر
ہے آج اُسی شخص کے ہاتھوں ہی میں کاسہ
یہ کیا ہے اگر پوچھوں تو کہتے ہو جوابأّ
اِس راز سے ہو سکتا نہیں کوئی شنا سا
تُم اِک گورکھ دھندا ہو
ہر ایک جا پہ ہو لیکن پتہ نہیں معلوم
تمہارا نام سُنا ہے نشاں نہیں معلوم
تُم اِک گورکھ دھندا ہو
دِل سے ارماں جو نِکل جائے تو جگنو ہو جائے
اور آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے
بال بیکا نہ کِسی کا ہو چھری کے نیچے
حلقِ اصغر میں کبھی تیر ترازو ہو جائے
تُم اِک گورکھ دھندا ہو
راہِ تحقیق میں ہر گام پہ اُلجھن دیکھوں
وہ ہی حالات و خیالات میں ان بن دیکھوں
بن کے رہ جاتا ہوں تصویر پریشانی کی
غور سے جب بھی کبھی دُنیا کا درپن دیکھوں
ایک ہی خاک سے فطرت کے تضادات اِتنے
اِتنے حصّوں میں بنٹا ایک ہی آنگن دیکھوں
کہیں ذہمت کی سُلگتی ہوئی پتجھڑ کا سما
کہیں رحمت کے برستے ہوئے ساون دیکھوں
کہیں پھنکارتے دریا، کہیں خاموش پہاڑ
کہیں جنگل، کہیں صحرا، کہیں گلشن دیکھوں
خوں رُلاتا ہے یہ تقسیم کا انداز مجھے
کوئی دھنوان یہاں پر کوئی نردھن دیکھوں
دِن کے ہاتھوں میں فقط ایک سُلگتا سورج
رات کی مانگ ستاروں سے مضیّن دیکھوں
کہیں مرجھائے ہوئے پھول ہیں سچّائی کے
اور کہیں جھوٹ کے کانٹوں میں بھی جوبن دیکھوں
شمس کی کھال کہیں کھنچتی نظر آتی ہے
کہیں سرمد کی اُترتی ہوئی گردن دیکھوں
رات کیا شئے ہے سویرا کیا ہے
یہ اُجالا یہ اندھیرا کیا ہے
میں بھی نائب ہوں تمہارا آخر
کیوں یہ کہتے ہو کہ تیرا کیا ہے
تُم اِک گورکھ دھندا ہو
دیکھنے والا تجھے کیا دیکھتا
تو نے ہر رنگ سے پردہ کیا
تم ایک گورکھ دھندا ہو
مسجد، مندر، یہ مے خانہ
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب تیرے ہیں جانا کا سہانا
ایک ہونے کا تیرے قائل ہے
انکار پہ کوئی مائل ہے
اصلیت لیکن تو جانے
ایک خلق میں شامل کرتا ہے
ایک سب سے اکیلا رہتا ہے
ہیں دونوں تیرے مستی میں
کوئی یہ مانے، کوئی وہ مانے
سب ہیں جب عاشق تمہارے نام کے
کیوں یہ جھگڑے ہیں رحیم و رام کے
دہر میں تو، حرم میں تو
عرش پہ تو، زمین پہ تو
جس کی پہنچ جہاں تک
اس کے لیے وہیں پہ تو
ہر ایک رنگ میں یکتا ہو
تم ایک گورکھ دھندا ہو
مرکزِ جستجو، عالمِ رنگ و بو
دم بدم جلوہ گر تو ہی تو چار سو
ہو کے ماحول میں، کچھ نہیں فیلا ہو
تم بہت دل ربا، تم بہت خوبرو
عرش کی عظمتیں، فرش کی ابرو
تم ہو کونین کا، حاصلِ آرزو
آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو
اب تو کر دو عطا دید کا ایک سدھو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو
چند لمحے ملن، دو گھڑی گفتگو
ناز جب تڑپے، جبا جے کو بکو
وحدہ ہو، وحدہ ہو، لا شریک لہو
اللہ ہو، اللہ ہو
Sometimes I searched for you here, sometimes I reached there,
Wandering far and wide just to see you.
The poor have perished, trampled and forgotten,
Yet no trace of you has reached anyone.
You are neither here nor there, and yet everywhere,
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
In every particle, you manifest with grandeur,
Yet the mind wonders; what are you, who are you?
I searched for you in temples and mosques, but you weren’t found,
But I found you residing in my heart.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You are nowhere to be found when sought,
Yet wherever we are, you are there.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
When there is nothing but you,
It becomes difficult to understand why you hide yourself.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
Your dazzling beauty shines in both temples and mosques,
Both are resplendent because of your light
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
The one lost in your love
Is the one who has truly found something,
Not in idol houses nor the Kaaba,
But found in a broken heart
As nothingness, you hide somewhere,
And as existence, you come forth.
If you don’t exist, then what is there to deny?
Even negation hints at your being.
What I call my existence—
If it isn’t you, then what is it?
If you never entered my thoughts,
How did I come to understand you as God?
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
I am bewildered; who are you, and what are you?
If I can hold you, you are an idol; if not, you are God.
If the mind comprehends you, how can you be infinite?
If you are understood, then how can you be God?
A philosopher does not find God in debates
He tries to untangle the thread but cannot find the end.
Though you declare your place is beyond space,
It is baffling how you reside in broken hearts.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
When no one exists besides you,
What is this tumult, O God?
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You do not hide, yet you do not appear.
You reveal your splendor, yet you do not show it.
You do not resolve the conflicts of temple and mosque,
And you do not reveal the true matter.
I am astonished at how you fit in my heart,
Though you do not fit in two universes?
Why these temples, mosques, churches, and shrines,
You are elusive, which is why you do not reveal the truth.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
Mystery has taken over my heart
Forming a tangled image that is hard to comprehend.
I don’t understand this cycle at all,
What game have you been playing since eternity?
You’ve caged the soul in the body,
And then placed death as a guard over it.
You gave the bird of free will the wings to fly,
But laid the traps of destiny everywhere.
For years, you adorned the two worlds,
Yet you’ve also devised a plan to end it all.
You still lay claim to the realm of the infinite.
You also sent the message, “We are closer.”
This evil, that good, this hell, that heaven—
Tell me, what is all this turmoil for?
Adam committed the sin, but his son(s) have been punished—
What standard of justice is this?
By granting humans your caliphate in the world,
You have turned the whole world into a spectacle.
You made everything to recognize yourself,
Yet you have hidden yourself from all eyes.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You create new forms and then erase them,
Who knows what crime of desire you punish us for.
Sometimes you turn pebbles into gems,
And sometimes you merge gems into dust.
The one who granted life to countless dead,
That Messiah you hung on a cross.
What someone sought a glimpse of yours on Mount Sinai
You burnt the mount itself with your radiant light.
You cast your friend into the fire of Namrood [the king of Babylon],
Then turn that fire into a garden.
You threw the moon of Canaan into a well,
And take away Yaqub’s (Jacob) power of sight
And you sold Yousuf (Joseph) in the markets of Egypt,
Only to make him the king of Egypt.
The one who reaches the peak of passion,
You put “I am the truth” in his heart.
You issue the decrees of blasphemy against him.
And you hang Mansur on the gallows.
The one who longs for your sight,
You make him lose his very self.
If a Romeo travels in your search
You tie him up in a creeper of conflict
If someone sets out in your pursuit,
You turn him into a Romeo of a Juliet.
If love for you awakens in a heart of Sassi
You burn her in the scorching desert.
If Sohni imagined you as her Mahinval
You drown her in the raging waves.
But when you wished, you summoned your beloved to the divine throne,
And granted the ascension [to the divine throne] in a single night.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You take offense at what I say, I know,
Yet I still hold a grievance against you.
You remained silent, watching from your throne,
As Muhammad’s grandson burned in the scorching desert.
He offered his blood to loyalty,
Though for three days, he was dying of thirst.
Enemies remained enemies, but sadly,
You did not even provide him a sip of water.
Cruelty is the inheritance of oppressors,
While the oppressed receive neither consolation nor comfort.
Yesterday, I saw a crown on someone’s head,
Today, that same person begs with a bowl.
When I ask what this is, you say,
No one can become acquainted with this secret.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You are everywhere, but no one knows where,
I have heard your name, but I do not know your sign.
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
When desires leave the heart, they become fireflies,
And when they gather in the eyes, they become tears.
Not even a hair is damaged when comes under a dagger
But the arrow in an infant’s throat becomes the scale of justice
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
On every step of the path of truth, I find confusion;
I see discord among ideas, thoughts, and circumstances.
I become a picture of distress and worry,
Whenever I carefully examine the mirror of world.
I see so many contradictions in a single glance,
I see one place divided into so many parts.
Somewhere I witness the smoke of hardship
While elsewhere, I see the rain of blessings
In one place, roaring rivers rush; in another, silent mountains stand.
There are forests in one corner, deserts in another, and gardens in yet another.
This division brings tears to my eyes—
Here, some are wealthy, while others are poor.
The day bears a burning sun,
While the night is adorned with stars.
Somewhere I see the flowers of truth wither,
And elsewhere, the thorns of lies are blooming.
I see the skin of Shams being stripped away,
And the neck of Sarmad being severed.
What is night, and what is dawn?
What is this light, and what is this darkness?
I am your deputy, after all—
So why do you say, “What is yours?”
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
What would the one who sees you truly perceive?
You are veiled in every way
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
Mosque, temple, tavern—
Some acknowledge this, some acknowledge that.
All of these places belong to you.
We are witness to your oneness,
While some lean toward denial.
But you alone know the Truth.
One includes him in the creation,
The other stays aloof from all,
Both are your devotes.
Some acknowledge this, some acknowledge that.
When all are lovers of your name,
Why are there disputes over Rahim and Ram?
You are in the temple, you are in the mosque,
You are on the Earth, you are on the divine throne.
Depending on where one can reach,
There you are present for him.
You are unique in every colour,
You are a baffling puzzle [tum ek gorakh dhanda ho]
You are the center of our quest, the world of colour and scent
You manifest at all times; you are omnipresent
In this atmosphere, nothing is missing,
You are so captivating, you are so beautiful.
The splendour of the heavens, the grace of the earth—
You are the fulfilment of longings from both worlds.
The eye has purified itself with tears,
Now grant us a flask of your manifestation.
Come forth from the veil to meet my gaze;
A few moments of union, a couple of hours of conversation.
When beauty sways, it manifests as elegance.
He has no partner; he is one
God is God.